رحمتوں برکتوں کا مہینہ رمضان المبارک

 

 رحمتوں برکتوں کا مہینہ





سال کے گیارہ مہینے ہم اس طرح گذارتے ہیں کہ ہمارے صبح و شام کے زیادہ تر اوقات دنیاوی کاموں مثلاً تجارت، ملازمت، زراعت، روزگار کی تلاش میں گذرتے ہیں، اپنے لئے جسمانی لذّتیں حاصل کرنے کی فکر میں گذرتے ہیں اور اگر کوئی آدمی فرائضِ شرعیہ کا پابند بھی ہو تو وہ ان فرائض اور دنیاوی کاموں میں مشغولیت کا تناسب دیکھے کہ کتنا وقت کس طرف لگ رہاہے؟ اگروہ پانچ وقت کی نماز پابندی سے پڑھتا ہے تو ساری نمازوں میں صرف ہونے والا وقت گھنٹہ دو گھنٹہ بنتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ دل کہیں ہے اور دماغ کہیں ہے، خشوع کا تقاضا بھی پورا نہیں ہوتا۔ دل و دماغ دنیا کے اُنہی مشاغل میں اُلجھے ہوئے ہیں جن کو چھوڑ کر نماز کیلئے آئے تھے اور نماز کے بعد جن کی طرف دوبارہ جانا ہے۔ جبکہ باقی سارا وقت اپنے جسم کیلئے راحت و لذّت مہیا کرنے اور اس کیلئے غذا فراہم کرنے کی خاطر گذرتا ہے۔

اس مہینے سے صحیح فائدہ اُٹھانے کا طریقہ یہ ہے کہ اس میں ہم اپنی عبادتوں کی مقدار بڑھا دیں اور دنیاوی مصروفیات کی تعدادکم کردیں۔ گیارہ مہینے جسم کی پرورش کی، اب اس مہینے میں اپنی روح کی پرورش کی طرف دِھیان دیں۔روحانی ترقی حاصل کریں، اللہ تبارک وتعالیٰ کا قرب حاصل کریں۔ اسی لئے اس ماہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے روزے کے ذریعے کھانے پینے کی مقدار کم فرما دی اور تراویح کو سنت قرار دیکر پانچوں نمازوں جتنا وقت اس میں صرف فرما دیا۔

اللہ تبارک وتعالیٰ کا مقصود، بندوں سے یہ ہے کہ بندے اس مہینے کی قدرکرکے اس میں اپنے جسم کے تقاضوں کوکم کریں اور روح کے تقاضوں کوغالب کریں، وہ کام زیادہ کریں جواُن کی روح کو نشوونما دینے والا ہو، اس کو پروان چڑھانے والا ہو، لہٰذا اس مہینے میں اپنی دنیاوی مصروفیات کم سے کم کی جائیں۔ دوستیوں اور میل جول سے پرہیز کریں، مجلس آرائیوں کے مشغلوں سے بچیں، اپنی ذاتی مصروفیات کو جس حدتک کم کرسکتے ہوں ،کم کرکے زیادہ سے زیادہ وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت میں صرف کریں۔

*رمضان المبارک کالائحہ عمل*

رمضان المبارک کے مہینے میں دو تین باتوں کا خصوصی اہتمام ہونا چاہئے۔ عام دنوں میں نفلی عبادتوں کاموقع نہیں ملتا یا توفیق نہیں ہوتی،کم ازکم رمضان المبارک میں ان کااہتمام کرلیں، مثلاً تہجد ہے، یہ اتنی عظیم عبادت ہے اور اس کے اتنے عظیم فوائد ہیں اور اس کے ذریعے انسان کی روح کو اتنی ترقی ملتی ہے کہ جو کسی اور نفلی عمل سے حاصل نہیں ہوتی۔عام دنوں میں ہم لوگ بکثرت اس عبادت سے محروم رہتے ہیں، کیونکہ ہماری معاشرتی زندگی اس ڈھب پرچل پڑی ہے کہ جو رات اللہ تبارک و تعالیٰ نے سونے کیلئے بنائی ہے وہ آدھی سے زیادہ جاگنے میں گزر جاتی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آخر شب میں اُٹھنا تو کجا فجر کی نماز کے بھی لالے پڑجاتے ہیں۔

*تہجد کا اہتمام*

عام دنوں میں آخیر رات میں اُٹھنے کی توفیق نہیں ہوتی لیکن رمضان المبارک میں پیٹ کی خاطر ہی سہی مگر اُٹھنا ہی پڑتا ہے، جب اُٹھناہی ہے تو ذرا کچھ پہلے اُٹھ جائیں اور وضو کرکے آٹھ رکعات تہجد پڑھ لیں۔ دعا کی قبولیت کیلئے وہ وقت بھی بڑا قیمتی وقت ہے۔ اس میں رمضان کے بعد بھی یہ معمول جاری رہنے کی دعاکرلیں۔

*نوافل کا اہتمام*

اسی طرح اشراق کی نماز کہ سورج نکلنے کے بارہ یا پندرہ منٹ بعد دو یا چار رکعت پڑھنا مسنون ہیں، اگر عام دنوں میں اس کی توفیق نہیں ہوتی تو رمضان میں اس کااہتمام کرلیں۔ مغرب کے بعد چھ سے بیس رکعات سے ثابت ہے جس کو ’’اوّابین‘‘ کہا جاتا ہے، ان کارمضان میں اہتمام کرلیں۔

*تلاوت قرآنِ کریم کا معمول*

دوسری بات یہ کہ رمضان المبارک میں قرآنِ کریم کی تلاوت کا خاص معمول بنائیں، کیونکہ قرآنِ کریم کو رمضان المبارک سے خاص نسبت حاصل ہے، شروع میں جو آیت تلاوت کی گئی تھی، اس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے رمضان کی عظمت کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا کہ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ ہم نے اس مہینے میں قرآنِ کریم نازل کیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کو نازل کرنے کیلئے اس مہینے کا انتخاب فرمایا، اس لئے اس مہینے کی قرآنِ کریم سے خاص نسبت ہے۔نبیِ اکرمﷺ ہر رمضان میں حضرت جبرئیلِ امین علیہ السلام کے ساتھ قرآنِ کریم کا دور کیا کرتے تھے۔ اس لئے اس ماہ میں جتنا زیادہ ہو سکے تلاوت کا اہتمام کیاجائے۔

جن لوگوں کو تلاوت کا صحیح طریقہ نہیں آتا وہ اس عرصہ میں کسی صحیح تلاوت کرنے والے سے تلاوت کا صحیح طریقہ سیکھ لیں۔ الف سے لیکر یاء تک (۲۹) حروف ہیں، ان میں سے بیشتر وہ ہیں جن کوصحیح طور پر ادا کرنے کیلئے کسی خاص مشق کی ضرورت نہیں پڑتی، ذرا سی کوشش سے ادا ہوجاتے ہیں، چند حروف ہیں جن میں قدرے محنت کرنا پڑتی ہے، مثلاًہم لوگ ث، س اور ص بولتے ہوئے اردو میں کوئی فرق نہیں کرتے، لیکن قرآنِ کریم میں یہ الگ الگ پڑھے جاتے ہیں۔اسی طرح ذ، ز، ظ اور ض میں فرق بھی قرآنِ کریم کی تلاوت میں ملحوظ رکھا جاتاہے، ہر مسلمان کے ذمہ اس کو سیکھنا فرضِ عین ہے۔

*کثرتِ ذکر اللہ کا اہتمام*

تیسری بات یہ کہ یہ مہینہ اللہ جل جلالہ کے ساتھ تعلق قائم کرنے کا مہینہ ہے، لہٰذا اس ماہ میں جتنا زیادہ ہو سکے، ذکر کریں، اس میں تیسراکلمہ
{ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وَلَآ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَ لَا حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ}
رمضان المبارک میں جتنا زیادہ ہو سکے، اس کا اہتمام کیاجائے۔

*دعا کا خاص اہتمام*

چوتھی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ مہینہ دعاؤں کا مہینہ بنایا ہے، اس مہینے میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے دعاؤں کی قبولیت کے دروازے کھلے ہوئے ہوتے ہیں، اس لئے ہمیں کثرت سے دعائیں کرنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت یہ ہے کہ اگر بندہ اپنی دنیاوی ضرورت کیلئے بھی دعا کرتا ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں عبادت میں شمار ہوتی ہے، ایک حدیث میں فرمایا گیا { اَلدُّعَآئُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ} دعاخودایک عبادت ہے، کوئی اپنے قرض کی ادائیگی کیلئے دعا مانگ رہا ہے، کوئی اپنے روزگار کیلئے اور کوئی اپنی معاشی خوشحالی کیلئے دعا مانگ رہا ہے، تب بھی یہ دعا بذات ِخود عبادت لکھی جاتی ہے۔

بزرگوں کا ایک معمول رہا ہے کہ اگر کوئی آدمی عصرکی نماز پڑھنے کیلئے مسجد میں جائے اور وہیں پر مغرب تک اعتکاف کی نیت کرکے بیٹھ جائے، پھر جو کچھ تلاوت و ذکر کی توفیق ہو وہ کرے اور پھر باقی وقت اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجات مانگنے میں گزار دے، یہاں تک کہ افطار ہو جائے تو اس کے بڑے انوار و برکات ہیں۔

کوشش کی جائے کہ اپنے اوقات کوزیادہ سے زیادہ فارغ کرکے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگا جائے تو ان شاء اللہ تعالیٰ اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت سے اُمید ہے کہ یہ رمضان ہم سب کیلئے خیر و برکت کا ذریعہ بنے گا، ہمارے گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ بنے گا، ان شاء اللہ ہمارے لئے ترقیٔ درجات کا ذریعہ ہوگا۔

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فضل و کرم اور اپنی رحمت سے ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائیں۔

وآخردعوانا ان الحمدللّٰہ ربّ العٰلمین

Previous Post Next Post